سبق نمبر 2

سبق نمبر 2

بسم اللہ الرحمن الرحیم

سبق نمبر 2

مختصر تعلیم طب میں بات ہورہی تھی اربع عناصر یا ارکان اربع  پر

چار ارکان یا اربع عناصروہ ہیں جس سےاللہ تبارک وتعالی نے انسان کو پیدا فرمایا ہے تعریف یہ ہے کہ ارکان یا عناصر ان اجزاء خالص کا نام ہے جن سے ملک کر تمام حیوانات یعنی جاندار نباتات یعنی پھل، پھول ،پودے درخت وغیرہ اور جمادات یعنی پتھر تیار ہوتے ہیں یہ پوری کائنات  جو ہے بشمول انسان کے یہ انھی چار عناصر یا چار ارکان پر مشتمل ہے  آگ ، ہوا،  پانی اورمٹی،یہ وہ چار عناصر ہیں یا ارکان ہیں جن سے ملکر تمام کائنات بنی ہےبمع انسان کے ،تو ارکان اصل میں رکن کی جمع ہے اور عناصر عنصر کی جمع ہے یعنی جزو یا

حصہ ۔اس سے مراد ابتدائی جزو  ہے آپ کائنات کی کسی چیز کو بھی لے لیں ان کے بنیادی جزو جو ہیں یہی چار ارکان یا اربع عناصر آپ کو ملیں گے جن کااوپر ہم ذکر کر رہے ہیں یعنی آگ ہوا پانی اور مٹی، یہ چار ارکان ہی انسان کی بنیاد ہیں اور انھی چارعناصر  سے اللہ تعالی نےانسان کو بنایا ہے اور یہی جسمِ انسان کے بنیادی اجزاء ہیں اور یہی چار چیزیں تمام دنیا کے  ابتدائی جزو ہیں۔

ایلو پیتھک نظریہ کے حامل ماہرین ہرآئے دن   ان ارکان کی تعداد بڑھاتے جارہے ہیں حتی کہ سو سے بھی زیادہ انہوں نے ان ارکان کی تعداد بنا لی ہے اور ہر سال ہی اس میں اضافہ کرتے جارہے ہیں،مثلا ان کا کہنا یہ ہے کہ سونا ،چاندی ،تانبا ، سکہ، لوہا،پارہ، گندھک، فاسفورس وغیرہ بھی بدن کا حصہ ہے یقینا ہے، تو بظاہر یہ اطباء میں اور ڈاکٹر حضرات میں بہت بڑا اختلاف ہے ، کہ ہم ارکان اربع مانتے ہیں اور وہ سو سے بھی زیادہ عناصربنا بیٹھے ہیں ، بظاہر اگرچہ حکماء اور ڈاکٹر حضرات کا یہ اختلاف بہت زبردست اختلاف معلوم ہوتا ہے مگر جب ہر چیز کا بغور مطالعہ گہرائی کے ساتھ کیا جائے تو کسی بھی چیز کا ابتدائی وجود انہی چار ارکان پر مشتمل نظر آئے گا،تو اس لئے یہ اختلاف کوئی زیادہ صحیح نہیں ہے بہر حال اس اختلاف سے علم طب کے اندرون میں کوئی خلو  واقع نہیں ہوتا ۔

جو چار ارکان ہیں یا اربع عناصرہیں ان کے مزاج کے متعلق تفصیل عرض کرتاچلوں، ان چار عناصر سے انسان ملکر بنا ہے آگ ہوا پانی اور مٹی،ہم جب کوئی چیز کھاتے ہیں یا کوئی چیز ہمارے بدن پر عمل کرتی ہے،تو اس سے بدن میں سب سے اولا کیفیات پیدا ہوتی ہیں یعنی اس استعمال ہونے والی چیز سے بدن میں سب سے پہلےکیفیات پیدا ہوں گی جو ایک دوسرے کے اثر وتاثیر یعنی مخالف تاثیر کو توڑیں گی مثلا گرمی وسردی سے اور خشکی وتری سے فنا یا کمزور ہوگی اس افراط وتفریط کے عمل سے گزرنے کے بعد جو کیفیات نئی سامنے آئیں گی اس کانام مزاج ہے کوئی بھی چیز ہم   کھاتے ہیں یا پیتے ہیں یا استعمال کرتے ہیں یا کوئی چیز ہمارے بدن پر اثر انداز   ہوتی ہےتو اس میں سب سے اولا ہمارے بدن میں کیفیات پیدا ہوتی ہیں، کیفیت اس حالت کا نام ہے جو کسی چیز کے استعمال کرنے کےبعد پیدا ہوتی ہے تویہ کیفیات جب غذا سےہمارے بدن میں پیدا ہوتی ہیں تو یہ متضاد ہوتی ہیں ۔اصل میں گرمی وخشکی ،تری اورسردی یہ چار کیفیات ہیں جو بدن میں پیدا ہوتی ہیں اور جب یہ پیدا ہوتی ہیں تو اس کے بعد گرمی کے ساتھ سردی کم ہوتی ہے یا ختم ہوتی ہے اسی طرح خشکی کے ساتھ تری کمزورہوجاتی ہے ، ان کے  آپس میں فعل وانفعال کے بعداور  ایک دوسرے میں اثر وتاثیر کے بعد آخر میں بچ جانے والی دو کیفیات جو ہیں ان کانام مزاج ہے یا یوں کہہ لیں کہ جو کیفیت جاکے بچتی ہیں ان دو کیفیتوں سے ملکر ایک مزاج بنتا ہے۔

تو گویا جو چار عناصر ہیں ان کے بھی مزاج ہیں ،مثلا آگ ہوا پانی اور مٹی اربعہ عناصر ہیں، تو ان کےاپنے اپنے مزاج ہیں ، تو ہم جب کوئی  چیز کھاتے ہیں یا کوئی چیز ہمارے بدن پرعمل کرتی ہے  تو اس سے بدن میں کیفیات پیدا ہوتی ہیں ،استعمال ہونے والی چیز سے بدن میں سب سے پہلے کیفیات پیدا ہوں گی جوایک دوسرے کے اثر وتاثیر ایک دوسرے کی مخالف تاثیرات کو توڑیں گی مثلا گرمی و سردی اور خشکی وتری سے فنا ہوجائے گی یاکمزور ہوجائے گی اس افراط وتفریط کے عمل سے گزرنے کے بعد جو کیفیت نئی سامنے آئے گی اس کا نام مزاج ہےاور مزاج دو کیفیات سے ملکر بنتا ہے کیونکہ واحد ذات اللہ رب العزت کی ہے اس کے علاوہ کوئی چیز واحد کہلانے کے مستحق نہیں ، اس لئے کیفیات کے جوڑے سے مزاج بنتا ہے۔

مثلا آگ کا مزاج گرم اور خشک مانا جاتا ہے اس میں مزاج کی پہلی کیفیت فعلی اور دوسری انفعالی ہوتی ہے تو پہلے نمبر پر قدیم اطباء کے نزدیک آگ کا مزاج گرم اور خشک ہے یہ مٹی اور پانی کی سردی کو توڑتی ہے اس کے علاوہ جس قدر گرمی کی ضرورت دنیا کو یا بدن انسان کو چاہیے اس آگ سے پوری ہوتی ہے ۔

اسی طرح دوسرے نمبر پر ہوا، ہوا کا مزاج  یونانی اطباء گرم تر مانتے ہوئے آئے ہیں مگر طب جدید میں یعنی قانون مفرد اعضاء میں ہوا کے مزاج کو خشک وگرم مانا گیا ہے یہ جو ہوا ہے یہ جسم کے اندر پھیلائواور کشادگی پیدا کرتی ہے اور سانس کے ذریعے بدن کے اندر جا کر زندگی کو سہارا دیتی ہےاور زندگی کو قائم رکھنے میں مدد دیتی ہے۔

اسی طرح تیسرے نمبر پر پانی: پانی کا مزاج سرد تر ہے اس کے بغیر جاندار زیادہ دیر زندہ نہیں رہ سکتے اور یہ گرمی وخشکی کو توڑتا ہے اور بدن انسانی کوتروتازہ اور نرم رکھنے میں مدد دیتا ہے۔

اور چوتھا عنصر مٹی:بدن انسان کا بنیادی جزو مٹی ہے اس کا مزاج سرد اور خشک ہے اور یہ بدن انسانی کو بنیاد فراہم کرتی ہے اس سے بدن انسانی کو ڈھا نچہ ملتا ہے مزاج چونکہ طب کی بنیا دی باتوں میں سے ایک ہے لہٰذا اس کی اہمیت کی وجہ سےمزاج کو دوبارہ دوسرے الفاظ میں سمجھیں، جب ارکان یا عناصر کے چھوٹے چھوٹے اجزاء آپس میں ملکر فعل وانفعال اثر وتاثیر کرتے ہیں تو ان میں سے ہر ایک دوسرے کی مخالف تاثیر کوتوڑڈالتا ہے اسے فنا کرتا ہے یا اسے کمزور کردیتا ہے اس کے نتیجے میں ایک نئی کیفیت حاصل ہوتی ہے اسے مزاج کہا جاتا ہے یا یوں سمجھے کہ مزاج ان کیفیات کا نام ہے جب ارکان ایک دوسرے سے ملتے ہیں اور ہر رکن اپنے مخالف رکن کے اثر کو توڑتا ہے یعنی آگ کی گرمی پانی سے سرد ہوتی ہے اور پانی کی سردی آگ کی گرمی سے گرم ہوتی ہے  اسی طرح مٹی کی خاصیت اور ہوا کی تاثیر اپنے اپنے مخالف اثرکو توڑنا چاہتی ہے ان کو ان کوششوں کے بعد جب ایک کا دوسرے میں خوب اثر پیدا ہوجائے تو اس سے ایک نئی کیفیت پیدا ہوتی ہے تو اس نئی کیفیت کو مزاج کہتے ہیں۔

Leave a Reply